*طلاق یافتہ، بیوہ اور معاشرتی رویہ*
طلاق یافتہ، بیوہ اور معاشرتی رویہ
جــــــا بیٹا یہ لے 20 روپے اور سامنے والی دکان سے چینی لے آ اور دکان والے سے کہہ دینا، اس کے پیسے بہت جلد مل جائیں گے۔۔۔
نہیں ماما میں نہیں جاؤں گا! دکان والا گالیاں دیتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کھ اپنی ماں کو بھیج اور کہتا ہے اگــــــر چاہئے تو سب کچھ مفت مل سکتا ہے
ماما یہ اگــــــر کا کیا مطلب ہے؟
وہ چپ ہوگئی کہتی بھی تو کیا کہتی اس کی آنکھوں میں آنسو تھے. اس کی شادی ہوئے صرف پانچ سال ہوئے تھے کہ اس کے شوہر کی ایک ایکسڈنٹ میں موت ہوگئی
دنیا بھی کیا چیز ہے!! پہلے اس کو خاندان میں بیسٹ بھابھی کہا جاتا تھا۔
لیکن اب اُسی عورت کو فقیرنی کہتے تھے
جب دیکھو منہ اٹھا کر مانگنے آجاتی ہے۔ محلے میں چند گھر اسکی مدد کر دیتے تھے. جن کا اس نے ساتھ برے حالات میں دیا تھا
اس کے ماں باپ زندہ نہیں تھے. اس نے بھائیوں کی مرضی کے خلاف اپنی پسند بتائی تھی انہوں نے ہاں تو کر دی اور خوش بھی تھے کہ چلو جان چھوٹ جائے گی اور اب کوئی ساتھ نہ دیتا تھا۔
وہی دکان والا جب نیا نیا محلے میں آیا تو اس کے شوہر کے پاس آیا اور کہا میری دکان چلنے میں مدد کر دو اور انکو باجی باجی کہا کرتا تھا۔
آج وہی اگر کہہ رہا تھا. اسکو اگر کا مطلب سمجھ آرہا تھا کیونکہ آگے اسکو بہت سی جگہ اگر سننا تھا۔
وہ آج سمجھ چکی تھی جب شوہر مر جائے اور تمام رستے بند ہو جائیں تو اسلامی معاشرے میں بھی عورت کو اگر کا سہارا لینا پڑ جاتا ہے کیونکہ مرد ذات گھاٹے کا سودا نہیں کرتی۔
کیونکہ اگر اسکو آخرت پہ یقین ہو جائے تو وہ کب کی تمام برائی کے اڈوں کو بند کروا کر ان عورتوں کی عزت سے کھیلنے کی بجائے ان کی مدد کرے. لیکن کیوں ہماری تو عزت ہمارے گھر محفوظ ہے نا!!
اگر ہم خود کو مرد ذات کہتے ہیں تو مرد ذات بن کر دکھائیں. کہیں ایسا نہ ہو کبھی برا وقت آئے اور جو اگــــــر ہم دوسری کی عزت کو کہتے ہیں کہیں وہ ہماری عزت کو نہ سننا پڑے۔
معاشرے کی بہتری کیلۓ ہر طلاق یافتہ اور بیوہ سے نکاح کرنا ہی پڑے گا جتنا ممکن ہو نکاح کو اہمیت دیں نکاح سنت بھی ہے رب کی خوشنودی بھی.
Comments
Post a Comment